اے ہوا تو ہی اسے عید مبارک کہیو
اور کہیو کہ کوئی یاد کیا کرتا ہے
تری پراری
ایک کردار نیا روز جیا کرتا ہوں
مجھ کو شاعر نہ کہو ایک اداکار ہوں میں
تری پراری
ایک تصویر بنائی ہے خیالوں نے ابھی
اور تصویر سے اک شخص نکل آیا ہے
تری پراری
جب سے گزرا ہے کسی حسن کے بازار سے دل
دل کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بازار ہوں میں
تری پراری
جن سے ملنا نہ ہوا ان سے بچھڑ کر روئے
ہم تو آنکھوں کی ہر اک حد سے گزر کر روئے
تری پراری
جسے تم ڈھونڈتی رہتی ہو مجھ میں
وہ لڑکا جانے کب کا مر چکا ہے
تری پراری
کئی لاشیں ہیں مجھ میں دفن یعنی
میں قبرستان ہوں شروعات ہی سے
تری پراری
کسی پر بھی یقیں کر لیتے ہو تم
تمہارے ساتھ کیا دھوکہ ہوا ہے
تری پراری
کتنی دل کش ہیں یہ بارش کی پھواریں لیکن
ایسی بارش میں مری جان بھی جا سکتی ہے
تری پراری