اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں
کیفیت پر گل رخسار چلے آتے ہیں
پڑ گئی کیا نگہ مست ترے ساقی کی
لڑکھڑاتے ہوئے مے خوار چلے آتے ہیں
یاد کیں نشہ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کس کی
غش تجھے اے دل بیمار چلے آتے ہیں
راہ میں صاحب اکسیر کھڑے ہیں مشتاق
خاکساران در یار چلے آتے ہیں
باغ میں پھول ہنسے دیتے ہیں بے دردی سے
نالۂ مرغ گرفتار چلے آتے ہیں
دیکھ کر ابروئے خم دار پھرے یوں عاشق
غل ہے کھائے ہوئے تلوار چلے آتے ہیں
جس طرح نرغے میں چلتے ہیں غزال صحرا
یوں تری چشم کے بیمار چلے آتے ہیں
ہوں وہ بے خود کہ یہ ہے نالۂ سوزاں پہ گماں
شعلۂ آتش رخسار چلے آتے ہیں
چاہئے شور قیامت پئے تعظیم اٹھے
آپ کے عاشق رفتار چلے آتے ہیں
شور سنتے ہیں جو ہم چاک گریبانوں کا
بند کھولے سر بازار چلے آتے ہیں
ہر طرف حشر میں جھنکار ہے زنجیروں کی
ان کی زلفوں کے گرفتار چلے آتے ہیں
چل گئی تیغ نگہ آج تعشقؔ پہ ضرور
لوگ اس کوچہ سے خوں بار چلے آتے ہیں
غزل
اپنی فرحت کے دن اے یار چلے آتے ہیں
تعشق لکھنوی