EN हिंदी
سراج فیصل خان شیاری | شیح شیری

سراج فیصل خان شیر

34 شیر

خوف آتا ہے اپنے سائے سے
ہجر کے کس مقام پر ہوں میں

سراج فیصل خان




خیال کب سے چھپا کے یہ من میں رکھا ہے
مرا قرار تمہارے بدن میں رکھا ہے

سراج فیصل خان




کھلی آنکھوں سے بھی سویا ہوں اکثر
تمہارا راستہ تکتا ہوا میں

سراج فیصل خان




کھلی جو آنکھ تو محشر کا شور برپا تھا
میں خوش ہوا کہ چلو آج مر گئی دنیا

سراج فیصل خان




کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے

سراج فیصل خان




لکھا ہے تاریخ کے صفحہ صفحہ پر یہ
شاہوں کو بھی داس بنایا جا سکتا ہے

سراج فیصل خان




مالک مجھے جہاں میں اتارا ہے کس لئے
آدم کی بھول میرا خسارہ ہے کس لئے

سراج فیصل خان