خوف آتا ہے اپنے سائے سے
ہجر کے کس مقام پر ہوں میں
سراج فیصل خان
آج میری اک غزل نے اس کے ہونٹوں کو چھوا
آج پہلی بار اپنی شاعری اچھی لگی
سراج فیصل خان
جیسے دیکھا ہو آخری سپنا
رات اتنی اداس تھیں آنکھیں
سراج فیصل خان
جب سے حاصل ہوا ہے وہ مجھ کو
خواب آنے لگے بچھڑنے کے
سراج فیصل خان
ہمیں رنجش نہیں دریا سے کوئی
سلامت گر رہے صحرا ہمارا
سراج فیصل خان
ہاتھ چھوٹا تو تیرگی میں تھا
ساتھ چھوٹا تو بجھ گئیں آنکھیں
سراج فیصل خان
دل کی دیوار پر سوا اس کے
رنگ دوجا کوئی چڑھا ہی نہیں
سراج فیصل خان
دشت جیسی اجاڑ ہیں آنکھیں
ان دریچوں سے خواب کیا جھانکیں
سراج فیصل خان
چاند بیٹھا ہوا ہے پہلو میں
قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں میں
سراج فیصل خان