اس طرح سجا رکھے ہیں میں نے در و دیوار
گھر میں تری صورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
مصطفی شہاب
ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں
جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے
مصطفی شہاب
حقیقت کو تماشے سے جدا کرنے کی خاطر
اٹھا کر بارہا پردہ گرانا پڑ گیا ہے
مصطفی شہاب
ہم میں اور پرندوں میں فرق صرف اتنا ہے
دست و پا ملے ہم کو بال و پر پرندوں کو
مصطفی شہاب
گو ترک تعلق میں بھی شامل ہیں کئی دکھ
بے کیف تعلق کے بھی آزار بہت ہیں
مصطفی شہاب
دل سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
جیسے اٹھ کر ابھی گیا ہے کوئی
مصطفی شہاب
در کنج صدا بند کا کھولیں گے کسی روز
ہم لوگ جو خاموش ہیں بولیں گے کسی روز
مصطفی شہاب
بکھرا بکھرا سا ساز و ساماں ہے
ہم کہیں دل کہیں عقیدہ کہیں
مصطفی شہاب
بچھڑا وہ مجھ سے ایسے نہ بچھڑے کبھی کوئی
اب یوں ملا ہے جیسے وہ پہلے ملا نہ ہو
مصطفی شہاب