EN हिंदी
مجید امجد شیاری | شیح شیری

مجید امجد شیر

17 شیر

بڑے سلیقے سے دنیا نے میرے دل کو دیے
وہ گھاؤ جن میں تھا سچائیوں کا چرکا بھی

مجید امجد




میں ایک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے مرے انتظار میں

مجید امجد




کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

مجید امجد




جب انجمن توجہ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہ کم سخن پڑے

مجید امجد




اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے

مجید امجد




ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہئے

مجید امجد




ہائے وہ زندگی فریب آنکھیں
تو نے کیا سوچا میں نے کیا سمجھا

مجید امجد




چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے

مجید امجد