ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات
یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات
جمیل الدین عالی
عالؔی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار
جمیل الدین عالی
ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو
جمیل الدین عالی
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالؔی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
جمیل الدین عالی
دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ
جمیل الدین عالی
دریا دریا گھومے مانجھی پیٹ کی آگ بجھانے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کس کس کو پہچانے
جمیل الدین عالی
برقع پوش پٹھانی جس کی لاج میں سو سو روپ
کھل کے نہ دیکھی پھر بھی دیکھی ہم نے چھاؤں میں دھوپ
جمیل الدین عالی
بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے
کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں
جمیل الدین عالی
بابو گیری کرتے ہو گئے عالؔی کو دو سال
مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال
جمیل الدین عالی