EN हिंदी
گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا | شیح شیری
gul-bang thi gulon ki hamara tarana tha

غزل

گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا

حاتم علی مہر

;

گلبانگ تھی گلوں کی ہمارا ترانہ تھا
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

کوچہ میں اس کے نالہ میرا بے کسانہ تھا
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا

جب کوئی زلف میں بھی نہ کچھ دخل شانہ تھا
سودائی تھا مزاج میرا عاشقانہ تھا

بلبل کو اپنا نالہ موزوں ترانہ تھا
ہر گل بھی مائل غزل عاشقانہ تھا

نالوں میں بلبلوں کی جو رنگ ترانہ تھا
فصل بہار تھی وہ گلوں کا زمانہ تھا

الجھا ہوا جو گیسوئے جاناں میں شانہ تھا
سنبل میں ایک اور نیا شاخ شانہ تھا

سودائیوں کو تھی تری الجھن بلا کی رات
زلف دوتا کا طول و طویل اک فسانہ تھا

جاتے ہیں آپ اور برا حال ہے مرا
آتی جو اب تو موت کو اچھا بہانہ تھا

تیر نگاہ کی جو کمان تھی جڑی ہوئی
اپنا جگر کبھی تو کبھی دل نشانہ تھا

دریاۓ مے کی گھات اتاریں گے ہم انہیں
شیریں کا جوئے شیر کا اگلا زمانہ تھا

اپنی شب وصال کا اللہ رے اہتمام
شبنم کی شبنمی تھی فلک شامیانہ تھا

کملی کو اپنا تان کے سویا فقیر مست
کیا پشم تھا امیروں کا جو شامیانہ تھا

کعبہ کا احترام خدا ساز ہو گیا
اس وقت میں کہاں یہ ترا آستانہ تھا

دیر و حرم میں کیا تھا اگر ہم سے پوچھئے
شایان سجدۂ یار ترا آستانہ تھا

کنج قفس میں شکوۂ صیاد کیا کروں
اس کا قصور کیا ہے میرا آب و دانہ تھا

روزی ہوا ہے دانۂ زنجیر و آب تیغ
قسمت کا عاشقوں کی یہ ہے آب و دانہ تھا

لوہے کے تھے چنے ترے چھینٹے غضب کے تھی
صیاد خوب اپنے لیے آب و دانہ تھا

ہو مجھ سا عندلیب خوش الحان اسیر دام
صیاد کا نصیب میرا آب و دانہ تھا

گندم جو خلد میں تو یہاں تھی شراب ناب
اک میں تھا دو جگہ پہ مرا آب و دانہ تھا

رند شراب خار رہا میں تمام عمر
انگور کا نصیب مجھے آب و دانہ تھا

میں وہ صدف ہوں جس کے ہے دریا دلی کا شور
جو ہنس چگ رہا ہے مرا آب و دانہ تھا

بلبل کے آگے اپنی بڑی بات رہ گئی
غنچہ سے تو کہیں تیرا چھوٹا دیا نہ ہاتھ

رنگیں خیالیاں دم فکر سخن نہ تھیں
زیب تن عروس لباس شہانہ تھا

مسی کبھی ملی کبھی گیسو بنا کئے
شب بھر شب وصال میں حیلہ بہانہ تھا

تجھ سے سوا تو اے صنم اللہ کا ہی نام
اچھا تھا ہاں حسین تھا یوسف برا نہ تھا

یاران رفتگاں کا نشاں خاک ڈھونڈیئے
ریگ رواں کا قافلہ تھا جو روانہ تھا

منہ دیکھی ان کے سامنے کہتے نہیں ہیں ہم
اپنی زبان پہ وصف دہن غائبانہ تھا

باد بہار جا کے اوڑا لائی باغ میں
کیا گنج شائیگان زر گل کا خزانہ تھا

اپنا سمند عمر جما جم کے اڑ گیا
شاید ہمارا راز نفس تازیانہ تھا

راز نہاں کسی پہ نہ اپنا عیاں ہوا
نا آشنائے گوش ہمارا فسانہ تھا

پہچانئے تو خاک کے پتلوں کی خاک کو
بیگانہ کون کون سا ان میں یگانہ تھا

اس شعلہ رو کی تھی جو دل صاف میں جگہ
آتش کدہ یہ مہرؔ کا آئینہ خانہ تھا