EN हिंदी
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا | شیح شیری
shikwa sun kar jo mizaj-e-but-e-bad-KHu badla

غزل

شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا

بیخود بدایونی

;

شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا

کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں
آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا

اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا
اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا

ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل
ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو بدلا

دل مضطر کی تڑپ سے جو میں تڑپا بیخودؔ
چارہ گر خوش ہیں کہ بیمار نے پہلو بدلا