EN हिंदी
رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے | شیح شیری
raqibon ka mujhse gila ho raha hai

غزل

رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے

بیخود بدایونی

;

رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے

دعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی
کچھ ایسا ہجوم بلا ہو رہا ہے

وہ جو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں
یہ جو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے

وہ نا آشنا بے وفا میری ضد سے
زمانے کا اب آشنا ہو رہا ہے

چھپائے ہوئے دل کو پھرتے ہیں بیخودؔ
کہ خواہاں کوئی دل ربا ہوا ہے