اب آدمی کچھ اور ہماری نظر میں ہے
جب سے سنا ہے یار لباس بشر میں ہے
بیدم شاہ وارثی
جس کی اس عالم صورت میں ہے رنگ آمیزی
اسی تصویر کا خاکہ تو یہ انسان بھی ہے
بیدم شاہ وارثی
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
بیدم شاہ وارثی
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہیٔ داماں ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
بیدمؔ یہ محبت ہے یا کوئی مصیبت ہے
جب دیکھیے افسردہ جب دیکھیے جب مغموم
بیدم شاہ وارثی
برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا
میرے ساقی مجھے مست مے عرفاں کرنا
بیدم شاہ وارثی
اپنا تو یہ مذہب ہے کعبہ ہو کہ بت خانہ
جس جا تمہیں دیکھیں گے ہم سر کو جھکا دیں گے
بیدم شاہ وارثی
اے جنوں کیوں لیے جاتا ہے بیاباں میں مجھے
جب تجھے آتا ہے گھر کو مرے صحرا کرنا
بیدم شاہ وارثی