نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ
دل آزاد کو وحشت نے بخشا ہے وہ کاشانہ
کہ اک در جانب کعبہ ہے اک در سوئے بت خانہ
بنائے میکدہ ڈالی جو تو نے پیر مے خانہ
تو کعبہ ہی رہا کعبہ نہ پھر بت خانہ بت خانہ
کہاں کا طور مشتاق لقا وہ آنکھ پیدا کر
کہ ذرہ ذرہ ہے نظارہ گاہ حسن جانانہ
خدا پوری کرے یہ حسرت دیدار کی حسرت
کہ دیکھوں اور ترے جلووں کو دیکھوں بے حجابانہ
شکست توبہ کی تقریب میں جھک جھک کے ملتی ہیں
کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشے سے پیمانہ
سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو
چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ
کبھی جو پردۂ بے صورتی میں جلوہ فرما تھے
انہیں کو عالم صورت میں دیکھا بے حجابانہ
مری دنیا بدل دی جنبش ابروئے جاناں نے
کہ اپنا ہی رہا اپنا نہ اب بیگانہ نہ بیگانہ
جلا کر شمع پروانے کو ساری عمر روتی ہے
اور اپنی جان دے کر چین سے سوتا ہے پروانہ
کسی کی محفل عشرت میں پیہم دور چلتے ہیں
کسی کی عمر کا لبریز ہونے کو ہے پیمانہ
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
یہ لفظ سالک و مجذوب کی ہے شرح اے بیدمؔ
کہ اک ہشیار ختم المرسلیں اور ایک دیوانہ
غزل
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
بیدم شاہ وارثی