اے عشق تو ہر چند مرا دشمن جاں ہو
مرنے کا نہیں نام کا میں اپنے بقاؔ ہوں
بقا اللہ بقاؔ
اپنی مرضی تو یہ ہے بندۂ بت ہو رہیے
آگے مرضی ہے خدا کی سو خدا ہی جانے
بقا اللہ بقاؔ
بانگ تکبیر تو ایسی ہے بقاؔ سینہ خراش
انگلیاں آپ موذن نے دھریں کان کے بیچ
بقا اللہ بقاؔ
بس پائے جنوں سیر بیاباں تو بہت کی
اب خانۂ زنجیر میں ٹک بیٹھ کے دم لے
بقا اللہ بقاؔ
بلبل سے کہا گل نے کر ترک ملاقاتیں
غنچے نے گرہ باندھیں جو گل نے کہیں باتیں
بقا اللہ بقاؔ
چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے
میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ
بقا اللہ بقاؔ
دیکھ آئینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں
اس کا میں دیکھنے والا ہوں بقاؔ واہ رے میں
بقا اللہ بقاؔ
دیکھا تو ایک شعلے سے اے شیخ و برہمن
روشن ہیں شمع دیر و چراغ حرم بہم
بقا اللہ بقاؔ
دلا اٹھائیے ہر طرح اس کی چشم کا ناز
زمانہ بہ تو نسازد تو با زمانہ بساز
بقا اللہ بقاؔ