دل بے تاب کا انداز بیاں ہے ورنہ
شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں
آنند نرائن ملا
ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں
ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر
آنند نرائن ملا
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
آنند نرائن ملا
آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا
آنند نرائن ملا
غم حیات شریک غم محبت ہے
ملا دئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ
آنند نرائن ملا
حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن
جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے
آنند نرائن ملا
ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے
کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے
آنند نرائن ملا
ہر اک صورت پہ دھوکا کھا رہی ہیں تیری صورت کا
ابھی آتا نہیں نظروں کو تاحد نظر جانا
آنند نرائن ملا
حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو
شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا
آنند نرائن ملا