EN हिंदी
یک بیک موسم کی تبدیلی قیامت ڈھا گئی | شیح شیری
yak-ba-yak mausam ki tabdili qayamat Dha gai

غزل

یک بیک موسم کی تبدیلی قیامت ڈھا گئی

اختر ہوشیارپوری

;

یک بیک موسم کی تبدیلی قیامت ڈھا گئی
رک کے سستانا تھا جب مجھ کو کڑی دھوپ آ گئی

دن ڈھلے کس کو ہے تجدید سفر کا حوصلہ
آتی جاتی رہ گزر ناحق مجھے بہکا گئی

بوئے گل موج ہوا ہے اور ہوا کیوں کر رکے
اب کے مٹی ہی کی خوشبو میرا گھر مہکا گئی

وہ ہوائیں ہیں اڑے جاتے ہیں پیراہن یہاں
اے عروس زیست تو کیوں گھر سے باہر آ گئی

یہ ہوا آئی کہاں سے اس سے میں واقف نہ تھا
میرے گھر میں جو چراغوں کا دھواں پھیلا گئی

وہ گھٹا پھر اس طرف سے لوٹ کر گزری نہیں
سوکھی دھرتی کو جو دریا کا پتہ بتلا گئی

زندگی مرگ طلب ترک طلب اخترؔ نہ تھی
پھر بھی اپنے تانے بانے میں مجھے الجھا گئی