آؤ آج ہم دونوں اپنا اپنا گھر چن لیں
تم نواح دل لے لو خطۂ بدن میرا
عبد اللہ کمال
ابھی گناہ کا موسم ہے آ شباب میں آ
نشہ اترنے سے پہلے مری شراب میں آ
عبد اللہ کمال
اپنے وجود سے پرے اب
کوئی بھی راستہ نہیں ہے
عبد اللہ کمال
چمک دے چاند کو ٹھنڈک ہوا کو دل کو امنگ
اداس قصے کو پھر ایک شاہزادہ دے
عبد اللہ کمال
اک مسلسل جنگ تھی خود سے کہ ہم زندہ ہیں آج
زندگی ہم تیرا حق یوں بھی ادا کرتے رہے
عبد اللہ کمال
میں تجھ کو جاگتی آنکھوں سے چھو سکوں نہ کبھی
مری انا کا بھرم رکھ لے میرے خواب میں آ
عبد اللہ کمال
تم تو اے خوشبو ہواؤ اس سے مل کر آ گئیں
ایک ہم تھے زخم تنہائی ہرا کرتے رہے
عبد اللہ کمال
وہ قیامت تھی کہ ریزہ ریزہ ہو کے اڑ گیا
اے زمیں ورنہ کبھی اک آسماں میرا بھی تھا
عبد اللہ کمال