اس کی جام جم آنکھیں شیشۂ بدن میرا
اس کی بند مٹھی میں سارا بانکپن میرا
میں نے اپنے چہرے پر سب ہنر سجائے تھے
فاش کر گیا مجھ کو سادہ پیرہن میرا
دل بھی کھو گیا شاید شہر کے سرابوں میں
اب مری طرح سے ہے درد بے وطن میرا
ایک دشت خاموشی اب مرا مقدر ہے
یاد بے صدا تیری زخم بے چمن میرا
آؤ آج ہم دونوں اپنا اپنا گھر چن لیں
تم نواح دل لے لو خطۂ بدن میرا
روز اپنے خوابوں کا خون کرتا رہتا ہوں
ہائے کن غنیموں سے آ پڑا ہے رن میرا
گاؤں کی ہواؤں نے پھر سندیسہ بھیجا ہے
منتظر تمہارا ہے خوشبوؤں کا بن میرا
غزل
اس کی جام جم آنکھیں شیشۂ بدن میرا
عبد اللہ کمال