EN हिंदी
عبد اللہ جاوید شیاری | شیح شیری

عبد اللہ جاوید شیر

16 شیر

ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا

عبد اللہ جاوید




سجاتے ہو بدن بے کار جاویدؔ
تماشا روح کے اندر لگے گا

عبد اللہ جاوید




شاعری پیٹ کی خاطر جاویدؔ
بیچ بازار کے آ بیٹھی ہے

عبد اللہ جاوید




ترک کرنی تھی ہر اک رسم جہاں
ہاں مگر رسم وفا رکھنی ہی تھی

عبد اللہ جاوید




تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو
تمہارا عکس بھی تم سا نہیں ہے

عبد اللہ جاوید




یقیں کا دائرہ دیکھا ہے کس نے
گماں کے دائرے میں کیا نہیں ہے

عبد اللہ جاوید




زمیں کو اور اونچا مت اٹھاؤ
زمیں کا آسماں سے سر لگے گا

عبد اللہ جاوید