کون جانے کس گھڑی یاں کیا سے کیا ہو کر رہے
خوف سا اک درمیاں ہوتا ہے تیرے شہر میں
عازم کوہلی
آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط
کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے
عازم کوہلی
جو ہوا جیسا ہوا اچھا ہوا
جب جہاں جو ہو گیا اچھا ہوا
عازم کوہلی
ہم نے مل جل کے گزارے تھے جو دن اچھے تھے
لمحے وہ پھر سے جو آتے تو بہت اچھا تھا
عازم کوہلی
ہم لکیریں کرید کر دیکھیں
رنگ لائے گا کیا یہ سال نیا
عازم کوہلی
دکھ پہ میرے رو رہا تھا جو بہت
جاتے جاتے کہہ گیا اچھا ہوا
عازم کوہلی
دیکھنا کیسے پگھلتے جاؤ گے
جب مری آغوش میں تم آؤ گے
عازم کوہلی
دیکھا نہ تجھے اے رب ہم نے ہاں دنیا تیری دیکھی ہے
سڑکوں پر بھوکے بچے بھی کوٹھے پر ابلہ ناری بھی
عازم کوہلی
بات چل نکلے گی پھر اقرار کی انکار کی
پھر وہی بچپن کے بھولے گیت گائے جائیں گے
عازم کوہلی