احساس کے سوکھے پتے بھی ارمانوں کی چنگاری بھی
اک دل سینے میں ٹوٹا سا اور فطرت میں دل داری بھی
مست امنگوں کے جھونکے اور فاقہ مستی کا عالم
حسرت کی تیز ہوائیں بھی امید کی آتش باری بھی
دل پر کھولے اڑنے کے لئے اڑنے کا مگر امکان کہاں
روکیں پیروں کی زنجیریں پنجرے کی چار دواری بھی
دیکھا نہ تجھے اے رب ہم نے ہاں دنیا تیری دیکھی ہے
سڑکوں پر بھوکے بچے بھی کوٹھے پر ابلہ ناری بھی
بے حال نہ ہو یوں ناداں دل ہر حال میں جینا ہے لازم
ہے رستے میں آسانی بھی مجبوری بھی دشواری بھی
اک کھیل مسلسل گردش کا دیکھا ہے ہم نے گلشن میں
پھولوں کا کھل کر مرجھانا اور کلیوں کی کلکاری بھی
منزل پہ نہ پہنچا جب کوئی الزام اسی پر کیوں آئے
رہرو کے بھٹکنے میں ہے کچھ رہبر کی ذمہ داری بھی
عازمؔ تیری بربادی میں سب نے مل جل کر کام کیا
کچھ کھیل لکیروں کا بھی ہے کچھ وقت کی کارگزاری بھی
غزل
احساس کے سوکھے پتے بھی ارمانوں کی چنگاری بھی
عازم کوہلی