ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے
ہم تو دنیا سے فقط اک درد جاں لے کر چلے
آدمی کو چاہئے توفیق چلنے کی فقط
کچھ نہیں تو گزرے وقتوں کا دھواں لے کر چلے
جب بہاریں بے وفا نکلیں تو کس امید پر
انتظار گل کی حسرت باغباں لے کر چلے
کب مقدر کا کہاں کیسا کوئی منظر بنے
ہم ہتھیلی پر لکیروں کے مکاں لے کر چلے
رہبری کا کچھ سلیقہ ہے نہ منزل کی خبر
کون سی جانب یہ میر کارواں لے کر چلے
دیکھتے ہیں زندگی کو اپنے ہی انداز سے
ہم جدھر کو چل پڑے اک داستاں لے کر چلے
ظلمتیں تاریک شب کی دور کرنے کے لئے
بادلوں سے ہم اے عازمؔ بجلیاں لے کر چلے
غزل
ظرف ہے کس میں کہ وہ سارا جہاں لے کر چلے
عازم کوہلی