چاہے دیوانہ کہیں یا لوگ سودائی کہیں
آ گئے ہم سر کو لے کر پتھروں کے شہر میں
شو رتن لال برق پونچھوی
ہجر میں یوں بہتے ہیں آنسو
جیسے رم جھم برسے ساون
شو رتن لال برق پونچھوی
اک دائمی سکوں کی تمنا ہے رات دن
تنگ آ گئے ہیں گردش شام و سحر سے ہم
شو رتن لال برق پونچھوی
کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
لوح دل پہ جس کے نشان ہیں وہی ایک نام قبول ہے
شو رتن لال برق پونچھوی
کوئی ہم سے خفا سا لگتا ہے
ورنہ دل کیوں بجھا سا لگتا ہے
شو رتن لال برق پونچھوی
محبت کو بہت ہوتی ہے غیرت
خطا ان کی ہے میں شرما رہا ہوں
شو رتن لال برق پونچھوی
پتھرائی آنکھوں میں دیکھو کیا کیا رنگ دکھاتا آنسو
ٹھہر گیا تو اک قطرہ سا بہہ نکلا تو دریا آنسو
شو رتن لال برق پونچھوی
ساتھ تیرا رہا نہیں باقی
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
شو رتن لال برق پونچھوی
سکوں افزا بہت ہے درد الفت
قرار اب عمر بھر آئے نہ آئے
شو رتن لال برق پونچھوی