آنگن کے اک پیڑ کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں
شہر میں جیسے آ گیا چل کر میرا گاؤں
سلیم انصاری
اس سے بڑھ کر اور کیا رشتوں پر دشنام
بھائی آیا پوچھنے مجھ سے میرا نام
سلیم انصاری
جرم محبت کی ملی ہم کو یہ پاداش
اپنے کاندھے پر چلے لے کر اپنی لاش
سلیم انصاری
خوش فہمی کی دھوپ میں روشن جھوٹی آس
اندھیارے میں رینگتا ہر سچ کا وشواس
سلیم انصاری
میں نے جس کی آنکھ سے دیکھے اپنے خواب
اب اس کا احساس بھی میرے لیے عذاب
سلیم انصاری
مندر مسجد توڑیئے لیکن رہے خیال
شیشے میں وشواس کے پڑ جائے نہ بال
سلیم انصاری
میرے چاروں اور تھے طرح طرح کے لوگ
پھر بھی مجھ کو لگ گیا تنہائی کا روگ
سلیم انصاری
راتیں جنگل کی طرح اور دن ریگستان
میری جیون یاترا کیسے ہو آسان
سلیم انصاری
رفتہ رفتہ گھل گئی میری سوچ کی برف
یعنی میں خود ہو گیا اپنے ہاتھوں صرف
سلیم انصاری