آنگن آنگن خون کے چھینٹے چہرہ چہرہ بے چہرہ
کس کس گھر کا ذکر کروں میں کس کس کے صدمات لکھوں
عبید الرحمان
اپنی ہی ذات کے محبس میں سمانے سے اٹھا
درد احساس کا سینے میں دبانے سے اٹھا
عبید الرحمان
بچوں کو ہم نہ ایک کھلونا بھی دے سکے
غم اور بڑھ گیا ہے جو تہوار آئے ہیں
عبید الرحمان
دکھاؤ صورت تازہ بیان سے پہلے
کہانی اور ہے کچھ داستان سے پہلے
عبید الرحمان
گھٹتی بڑھتی رہی پرچھائیں مری خود مجھ سے
لاکھ چاہا کہ مرے قد کے برابر اترے
عبید الرحمان
ہمیں ہجرت سمجھ میں اتنی آئی
پرندہ آب و دانہ چاہتا ہے
عبید الرحمان
ہمیں تو خواب کا اک شہر آنکھوں میں بسانا تھا
اور اس کے بعد مر جانے کا سپنا دیکھ لینا تھا
عبید الرحمان
جب دھوپ سر پہ تھی تو اکیلا تھا میں عبیدؔ
اب چھاؤں آ گئی ہے تو سب یار آئے ہیں
عبید الرحمان
جہاں پہنچنے کی خواہش میں عمر بیت گئی
وہیں پہنچ کے حیات اک خیال خام ہوئی
عبید الرحمان