بظاہر دشت کی جانب تو بڑھتا جا رہا ہے
مگر سب راستے بھی یاد کرتا جا رہا ہے
نشانت شری واستو نایاب
چوڑیاں کیوں اتار دیں تم نے
صبحیں کتنی اداس رہتی ہیں
نشانت شری واستو نایاب
ایک بھی پتھر نہ آیا راہ میں
نیند میں ہم عمر بھر چلتے رہے
نشانت شری واستو نایاب
حفاظت ہر کسی کی وہ بڑی خوبی سے کرتا ہے
ہوا بھی چلتی رہتی ہے دیا بھی جلتا رہتا ہے
نشانت شری واستو نایاب
جنوں کو ڈھال بنایا تو بچ گئے ورنہ
یہ زندگی ہمیں مجبور کر بھی سکتی تھی
نشانت شری واستو نایاب
میں ایک پل میں اندھیرے سے ہار جاؤں گا
تمام عمر چراغوں کے بیچ گزری ہے
نشانت شری واستو نایاب
رات اب اپنے اختتام پہ ہے
احتراماً دیے بجھا دیجے
نشانت شری واستو نایاب