آ دوست ساتھ آ در ماضی سے مانگ لائیں
وہ اپنی زندگی کہ جواں بھی حسیں بھی تھی
نثار اٹاوی
اب بھی جو لوگ سر دار نظر آتے ہیں
کچھ وہی محرم اسرار نظر آتے ہیں
نثار اٹاوی
افسوس کسی سے مٹ نہ سکی انسان کے دل کی تشنہ لبی
شبنم ہے کہ رویا کرتی ہے بادل ہیں کہ برسا کرتے ہیں
نثار اٹاوی
اے عقل ساتھ رہ کہ پڑے گا تجھی سے کام
راہ طلب کی منزل آخر جنوں نہیں
نثار اٹاوی
بہار ہو کہ موج مے کہ طبع کی روانیاں
جدھر سے وہ گزر گئے ابل پڑیں جوانیاں
نثار اٹاوی
برسوں سے ترا ذکر ترا نام نہیں ہے
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آرام نہیں ہے
نثار اٹاوی
بسر کرے جو مجاہدانہ حیات اسے دائمی ملے گی
نہ بھیک میں زندگی ملی ہے نہ بھیک میں زندگی ملے گی
نثار اٹاوی
چھپے تو کیسے چھپے چمن میں مرا ترا ربط والہانہ
کلی کلی حسن کی کہانی نظر نظر عشق کا فسانہ
نثار اٹاوی
دل میں کیا کیا گماں گزرتے ہیں
مسکراؤ نہ بات سے پہلے
نثار اٹاوی