آئینے سے مجھ دل کے تحیر کو ملا دیکھ
یہ دونوں برابر ہیں کوئی بیش نہ کم ہے
نین سکھ
آگے کو بڑھ سکے ہے نہ پیچھے کو ہٹ سکے
یاں تک ترے خیال میں اب ڈٹ گیا ہے دل
نین سکھ
اور سب مانیؔ نے تیری تو بنائی تصویر
پر درست ہو نہ سکی چہرے کی پرواز ہنوز
نین سکھ
چٹپٹی دل کی بجھی یار کے دیکھے سے یوں
بھوکے کو جیسے کہیں سے گویا کھانا آیا
نین سکھ
دیکھا ہے کہیں گل نے تجھے جس کی خوشی سے
پھولا ہے وہ اتنا کہ قبا میں نہ سماوے
نین سکھ
ایدھر سے سیتے جاؤ اور اودھر سے پھٹتا جائے
ایسے طرح کے کپڑے کو پھر سیجے بھی نہیں
نین سکھ
اس ماجرا کو جا کے کہوں کس کے روبرو
میری تو دوڑ ہے گی ترے آستاں تلک
نین سکھ
جاوے بھی پھر آوے بھی کئی شکل سے ہر بار
چکر میں کہاں، پر یہ مزا تان میں دیکھا
نین سکھ
جتنا کہ ہے افراط تری کم نگہی کا
اتنا ہی ادھر دیکھو تو یہ دیدۂ نم ہے
نین سکھ