بہت قریب ہے مضطرؔ وہ زندگی کا نظام
نظر نہ آئے گا جب کوئی بسمل و قاتل
مضطر حیدری
ہائے بے چہرگی یہ انساں کی
ہائے یہ آدمی نما کیا ہے
مضطر حیدری
اک ٹھیس بھی ہلکی سی پتھر سے گراں تر ہے
نازک ہے یہ دل اتنا شیشے کا ہو گھر جیسے
مضطر حیدری
جھکی جھکی جو ہے کڑوی کسیلی نیم کی شاخ
اسی پہ شہد کا چھتہ دکھائی دیتا ہے
مضطر حیدری
کل رات مرے دل نے پھر چپکے سے پوچھا ہے
مضطرؔ تری آہوں میں آئے گا اثر کب تک
مضطر حیدری
خلوص ہو تو کہیں بندگی کی قید نہیں
صنم کدے میں طواف حرم بھی ممکن ہے
مضطر حیدری
کوئی بھی شکل مکمل کتاب بن نہ سکی
ہر ایک چہرہ یہاں اقتباس جیسا ہے
مضطر حیدری
محفل میں ان کی کھل گیا دل کا معاملہ
پلکوں پہ اشک رہ گئے پینے کے بعد بھی
مضطر حیدری
سنگریزوں کو حقارت سے نہ ٹھکرائیے آپ
خاک کے ذرے بھی سینے میں شرر رکھتے ہیں
مضطر حیدری