آنکھ اپنی تری ابرو پہ جمی رہتی ہے
روز اس بیت پہ ہم صاد کیا کرتے ہیں
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
چار بوسے تو دیا کیجیے تنخواہ مجھے
ایک بوسے پہ مرا خاک گزارا ہوگا
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی تو ہے ہر بات پر گالی
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ہدایت شیخ کرتے تھے بہت بہر نماز اکثر
جو پڑھنا بھی پڑی تو ہم نے ٹالی بے وضو برسوں
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ہجوم رنج و غم و درد ہے مروں کیوں کر
قدم اٹھاؤں جو آگے کشادہ راہ ملے
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
جو تیرے گنہ بخشے گا واعظ وہ مرے بھی
کیا تیرا خدا اور ہے بندہ کا خدا اور
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
کافر ہو پھر جو شرع کا کچھ بھی کرے خیال
جب جام بھر کے ہاتھ سے یار اپنے دے شراب
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
ملک الموت موذن ہے مرا وصل کی رات
دم نکل جاتا ہے جب وقت اذاں آتا ہے
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی
نہ لڑاؤ نظر رقیبوں سے
کام اچھا نہیں لڑائی کا
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی