آزردہؔ مر کے کوچۂ جاناں میں رہ گیا
دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے
مفتی صدرالدین آزردہ
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
مفتی صدرالدین آزردہ
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
مفتی صدرالدین آزردہ
فلک نے بھی سیکھے ہیں تیرے ہی طور
کہ اپنے کئے پر پشیماں نہیں
مفتی صدرالدین آزردہ
اس درد جدائی سے کہیں جان نکل جائے
آزردہؔ مرے حق میں ذرا یوں بھی دعا کر
مفتی صدرالدین آزردہ
کٹتی کسی طرح سے نہیں یہ شب فراق
شاید کہ گردش آج تجھے آسماں نہیں
مفتی صدرالدین آزردہ
میں اور ذوق بادہ کشی لے گئیں مجھے
یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں
مفتی صدرالدین آزردہ
ناصح یہاں یہ فکر ہے سینہ بھی چاک ہو
ہے فکر بخیہ تجھ کو گریباں کے چاک میں
مفتی صدرالدین آزردہ