آنسوؤں کے جہاں میں رہتے ہیں
ہم اسی کہکشاں میں رہتے ہیں
مہتاب عالم
بند کمرے میں ذہن کیا بدلے
گھر سے نکلو تو کچھ فضا بدلے
مہتاب عالم
بنے ہیں کتنے چہرے چاند سورج
غزل کے استعاراتی افق پر
مہتاب عالم
دل بھی توڑا تو سلیقے سے نہ توڑا تم نے
بے وفائی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
مہتاب عالم
دل کو پھر درد سے آباد کیا ہے میں نے
مدتوں بعد تجھے یاد کیا ہے میں نے
مہتاب عالم
اک سفر پھر مری تقدیر ہوا جاتا ہے
راستہ پاؤں کی زنجیر ہوا جاتا ہے
مہتاب عالم
ناقدو تم تو مرے فن کی پرکھ رہنے دو
اپنے سونے کو میں پیتل نہیں ہونے دوں گا
مہتاب عالم
شر سے ہے خیر کا امکاں پیدا
نور و ظلمت ہوئے جڑواں پیدا
مہتاب عالم
تم زمانے کے ہو ہمارے سوا
ہم کسی کے نہیں تمہارے ہیں
مہتاب عالم