بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا
ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا
خالد حسن قادری
گھٹن تو دل کی رہی قصر مرمریں میں بھی
نہ روشنی سے ہوا کچھ نہ کچھ ہوا سے ہوا
خالد حسن قادری
کس سے پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں
یاد اب ہم کو وہ گلی ہی نہیں
خالد حسن قادری
مری جاں تیری خاطر جاں کا سودا
بہت مہنگا بھی ہے دشوار بھی ہے
خالد حسن قادری
نہ آئے تم نہ آؤ تم کہ اب آنے سے کیا حاصل
خود اب تو ہم سے اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی
خالد حسن قادری
صدائے شہر فسوں ہے نظر نہ در سے ہٹا
وہ مثل سنگ ہوا جس نے لوٹ کر دیکھا
خالد حسن قادری
تمہارے نام پہ دل اب بھی رک سا جاتا ہے
یہ بات وہ ہے کہ اس سے مفر نہیں ہوتا
خالد حسن قادری
یہ وقفہ ساعتوں کا چند صدیوں کے برابر ہے
وہ اب آواز دیتے ہیں تو پہچانی نہیں جاتی
خالد حسن قادری