EN हिंदी
جاوید کمال رامپوری شیاری | شیح شیری

جاوید کمال رامپوری شیر

10 شیر

آئی تھی چند گام اسی بے وفا کے ساتھ
پھر عمر بھر کو بھول گئی زندگی ہمیں

جاوید کمال رامپوری




اب تو آ جاؤ رسم دنیا کی
میں نے دیوار بھی گرا دی ہے

جاوید کمال رامپوری




اگر سکون سے عمر عزیز کھونا ہو
کسی کی چاہ میں خود کو تباہ کر لیجے

جاوید کمال رامپوری




دروازوں کے پہرے ہیں دیواروں کے سنگینیں
ہوتا جو مرے بس میں اس گھر سے نکل جاتا

جاوید کمال رامپوری




دن کے سینے میں دھڑکتے ہوئے لمحوں کی قسم
شب کی رفتار سبک گام سے جی ڈرتا ہے

جاوید کمال رامپوری




ہائے وہ لوگ ہم سے روٹھ گئے
جن کو چاہا تھا زندگی کی طرح

جاوید کمال رامپوری




ہاتھ پھر بڑھ رہا ہے سوئے جام
زندگی کی اداسیوں کو سلام

جاوید کمال رامپوری




ہم آگہی کو روتے ہیں اور آگہی ہمیں
وارفتگئ شوق کہاں لے چلی ہمیں

جاوید کمال رامپوری




پھر کئی زخم دل مہک اٹھے
پھر کسی بے وفا کی یاد آئی

جاوید کمال رامپوری