اب کہے جاؤ فسانے مری غرقابی کے
موج طوفاں کو مرے حق میں تھا ساحل ہونا
ہیرا لال فلک دہلوی
اے شام غم کی گہری خموشی تجھے سلام
کانوں میں ایک آئی ہے آواز دور کی
ہیرا لال فلک دہلوی
اپنا گھر پھر اپنا گھر ہے اپنے گھر کی بات کیا
غیر کے گلشن سے سو درجہ بھلا اپنا قفس
ہیرا لال فلک دہلوی
چراغ علم روشن دل ہے تیرا
اندھیرا کر دیا ہے روشنی نے
ہیرا لال فلک دہلوی
دیکھوں گا کس قدر تری رحمت میں جوش ہے
پروردگار مجھ کو گناہوں کا ہوش ہے
i will see to what extent your mercy is sublime
my lord I am aware of the nature of my crime
ہیرا لال فلک دہلوی
حال بیمار کا پوچھو تو شفا ملتی ہے
یعنی اک کلمۂ پرسش بھی دوا ہوتا ہے
ہیرا لال فلک دہلوی
ہم تو منزل کے طلب گار تھے لیکن منزل
آگے بڑھتی ہے گئی راہ گزر کی صورت
ہیرا لال فلک دہلوی
کیا بات ہے نظروں سے اندھیرا نہیں جاتا
کچھ بات نہ کر لی ہو شب غم نے سحر سے
ہیرا لال فلک دہلوی
لوگ اندازہ لگائیں گے عمل سے میرے
میں ہوں کیسا مرے ماتھے پہ یہ تحریر نہیں
ہیرا لال فلک دہلوی