عدم سے ہستی میں جب ہم آئے نہ کوئی ہمدرد ساتھ لائے
جو اپنے تھے وہ ہوئے پرائے اب آسرا ہے تو بیکسی کا
جارج پیش شور
دیتے نہ دل جو تم کو تو کیوں بنتی جان پر
کچھ آپ کی خطا نہ تھی اپنا قصور تھا
جارج پیش شور
دل میں اپنے آرزو سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں
دو جہاں کی جستجو سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں
جارج پیش شور
دور ہم سے ہیں وہ تو کیا ڈر ہے
پاس ہے اپنے آرسی دل کی
جارج پیش شور
گزشتہ سال جو دیکھا وہ اب کی سال نہیں
زمانہ ایک سا بس ہر برس نہیں چلتا
جارج پیش شور
ہے تلاش دو جہاں لیکن خبر اپنی کسے
جیتے جی تک جستجو سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں
جارج پیش شور
ہوا کے گھوڑے پہ رہتا ہے وہ سوار مدام
کسی کا اس کے برابر فرس نہیں چلتا
جارج پیش شور
اک خیال و خواب ہے اے شورؔ یہ بزم جہاں
یار اور جام و سبو سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں
جارج پیش شور
اک نظر نے کیا ہے کام تمام
آرزو بھی تو تھی یہی دل کی
جارج پیش شور