EN हिंदी
دشینتؔ کمار شیاری | شیح شیری

دشینتؔ کمار شیر

19 شیر

اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو
یہ کنول کے پھول کمہلانے لگے ہیں

دشینتؔ کمار




ایک عادت سی بن گئی ہے تو
اور عادت کبھی نہیں جاتی

you are now like a habit to me
and from a habit one, cannot be free

دشینتؔ کمار




ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے
جس میں تہہ خانوں سے تہہ خانے لگے ہیں

دشینتؔ کمار




ہو گئی ہے پیر پروت سی پگھلنی چاہئے
اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے

دشینتؔ کمار




کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لیے
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لیے

دشینتؔ کمار




کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

دشینتؔ کمار




لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو
شریف لوگ اٹھے دور جا کے بیٹھ گئے

دشینتؔ کمار




میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

دشینتؔ کمار




نہ ہو قمیض تو پاؤں سے پیٹ ڈھک لیں گے
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں اس سفر کے لیے

دشینتؔ کمار