صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے
دشینتؔ کمار
اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو
یہ کنول کے پھول کمہلانے لگے ہیں
دشینتؔ کمار
نہ ہو قمیض تو پاؤں سے پیٹ ڈھک لیں گے
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں اس سفر کے لیے
دشینتؔ کمار
میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل آپ کو سناتا ہوں
دشینتؔ کمار
لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو
شریف لوگ اٹھے دور جا کے بیٹھ گئے
دشینتؔ کمار
کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو
دشینتؔ کمار
کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لیے
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لیے
دشینتؔ کمار
ہو گئی ہے پیر پروت سی پگھلنی چاہئے
اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے
دشینتؔ کمار
ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے
جس میں تہہ خانوں سے تہہ خانے لگے ہیں
دشینتؔ کمار