آنکھوں میں تری شکل ہے دل میں ہے تری یاد
آئے بھی تو کس شان سے فرقت کے دن آئے
عزیز حیدرآبادی
آرام اپنے بس کا ہے بس میں نہیں ہے کیا
گلشن میں کیا دھرا ہے قفس میں نہیں ہے کیا
عزیز حیدرآبادی
ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے ابھی کچھ
تری کافر نظر کیا جانے کیا ہے
عزیز حیدرآبادی
عیاں یا نہاں اک نظر دیکھ لیتے
کسی صورت ان کو مگر دیکھ لیتے
عزیز حیدرآبادی
بہت کچھ دیکھنا ہے آگے آگے
ابھی دل نے مرے دیکھا ہی کیا ہے
عزیز حیدرآبادی
دم تکلم کسی کے آگے ہم اپنے دل کو بھی دیتے ہوکے
ملاتے چن چن کے لفظ ایسے سوال گویا جواب ہوتا
عزیز حیدرآبادی
درد سہنے کے لئے صدمے اٹھانے کے لئے
ان سے دل اپنا مجھے واپس طلب کرنا پڑا
عزیز حیدرآبادی
دیکھتا ہوں ان کی صورت دیکھ کر
دھوپ میں تارے نظر آتے ہیں مجھے
عزیز حیدرآبادی
دھڑکتے ہوئے دل کے ہمراہ میرے
مری نبض بھی چارہ گر دیکھ لیتے
عزیز حیدرآبادی