محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے
چلو جانے بھی دو جھگڑا ہی کیا ہے
بہت کچھ دیکھنا ہے آگے آگے
ابھی دل نے مرے دیکھا ہی کیا ہے
الٰہی کس کے لئے گرتی ہے بجلی
نشیمن میں مرے رکھا ہی کیا ہے
محبت میں جئے یا کوئی مر جائے
کسی کی آپ کو پروا ہی کیا ہے
نہ مانے گا نہ مانے گا مرا دل
''نہیں'' سے آپ کی ہوتا ہی کیا ہے
غزل
محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے
عزیز حیدرآبادی