EN हिंदी
محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے | شیح شیری
mohabbat ka mujhe dawa hi kya hai

غزل

محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے

عزیز حیدرآبادی

;

محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے
چلو جانے بھی دو جھگڑا ہی کیا ہے

بہت کچھ دیکھنا ہے آگے آگے
ابھی دل نے مرے دیکھا ہی کیا ہے

الٰہی کس کے لئے گرتی ہے بجلی
نشیمن میں مرے رکھا ہی کیا ہے

محبت میں جئے یا کوئی مر جائے
کسی کی آپ کو پروا ہی کیا ہے

نہ مانے گا نہ مانے گا مرا دل
''نہیں'' سے آپ کی ہوتا ہی کیا ہے