بہت آسان ہے مشترکہ دلوں میں تفریق
بات تو جب ہے کہ بچھڑوں کو ملایا جائے
انور جمال انور
دامن پہ تو ہر ایک کے چھیٹیں ہیں خون کی
اب کس سے پوچھئے کہ گنہ گار کون ہے
انور جمال انور
ہے تقاضائے تہذیب انورؔ
مت کہو وہ کہ جو منہ میں آئے
انور جمال انور
ہم فطرتاً انساں ہیں فرشتے تو نہیں ہیں
دعویٰ یہ کریں کیسے کہ لغزش نہیں کرتے
انور جمال انور
ہم سے وفا شعار کو بھی تیرے رو بہ رو
کھانی پڑی وفا کی قسم تیرے شہر میں
انور جمال انور
حسن ایسا کہ زمانے میں نہیں جس کی مثال
اور جمال ایسا کہ ڈھونڈا کرے ہر خواب و خیال
انور جمال انور
کیسا مقام آیا محبت کی راہ میں
دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ تر نہیں
انور جمال انور
روز اٹھ جاتی ہے گھر میں کوئی دیوار نئی
اس طرح تنگ ہوا جاتا ہے آنگن اپنا
انور جمال انور
سچ یہ ہے ہم ہی محبت کا سبق پڑھ نہ سکے
ورنہ ان پڑھ تو نہ تھے ہم کو پڑھانے والے
انور جمال انور