بہت نزدیک تھے تصویر میں ہم
مگر وہ فاصلہ جو دکھ رہا تھا
عین عرفان
بس ایک دھن تھی سمندر کو پار کرنے کی
میں جانتا تھا سمندر کے پار کچھ بھی نہ تھا
عین عرفان
بے مقصد محفل سے بہتر تنہائی
بے مطلب باتوں سے اچھی خاموشی
عین عرفان
گامزن ہیں ہم مسلسل اجنبی منزل کی سمت
زندگی کی آرزو میں زندگی کھوتے ہوئے
عین عرفان
غرق ہوتے جہاز دیکھے ہیں
سیل وقت رواں سمجھتا ہوں
عین عرفان
حادثہ کون سا ہوا پہلے
رات آئی کہ دن ڈھلا پہلے
عین عرفان
ہو دن کہ چاہے رات کوئی مسئلہ نہیں
میرے لئے حیات کوئی مسئلہ نہیں
عین عرفان
جہاں تک ڈوبنے کا ڈر ہے تم کو
چلو ہم ساتھ چلتے ہیں وہاں تک
عین عرفان
کبھی سوچوں کہ خود میں لوٹ آؤں
کبھی سوچوں کہ ایسا کیوں کروں میں
عین عرفان