آنا ذرا تفریح رہے گی
اک محفل صدمات کریں گے
احمد صغیر صدیقی
چاہے ہیں تماشا مرے اندر کئی موسم
لاؤ کوئی صحرا مری وحشت کے برابر
احمد صغیر صدیقی
چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف
بجھے بجھے ہیں تبھی آج بام و در میرے
احمد صغیر صدیقی
گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں
ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا
احمد صغیر صدیقی
ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر
مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی
احمد صغیر صدیقی
اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ
تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا
احمد صغیر صدیقی
عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے
احمد صغیر صدیقی
جی بھر کے ستارے جگمگائیں
مہتاب بجھا دیا گیا ہے
احمد صغیر صدیقی
کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم
آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں
احمد صغیر صدیقی