EN हिंदी
احمد صغیر صدیقی شیاری | شیح شیری

احمد صغیر صدیقی شیر

25 شیر

جی بھر کے ستارے جگمگائیں
مہتاب بجھا دیا گیا ہے

احمد صغیر صدیقی




عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے

احمد صغیر صدیقی




اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ
تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا

احمد صغیر صدیقی




ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر
مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی

احمد صغیر صدیقی




گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں
ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا

احمد صغیر صدیقی




چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف
بجھے بجھے ہیں تبھی آج بام و در میرے

احمد صغیر صدیقی




چاہے ہیں تماشا مرے اندر کئی موسم
لاؤ کوئی صحرا مری وحشت کے برابر

احمد صغیر صدیقی