اس کسان کو دیکھو
زندگی کے پتھر سے جسم ٹوٹتا ہوا
گاؤں میں
جس کے گھر اداس ہیں
حسرتوں اور آنسوؤں کے نم کے غم نواس ہیں
جا رہا ہے استخوان سر درد
اک جلے بجھے ہوئے زرد زرد گرد گرد رستے پر
اس کا علم لیے
جبر میں بھی صبر اور سپاس کے قدم لیے
وقت سویا سویا ہے
خواب جاگے جاگے ہیں
بیل آگے آگے ہیں
کس قدر عجیب چیز زندگی کے دھاگے ہیں
نظم
زندگی کے دھارے
سید ضمیر جعفری