EN हिंदी
زندگی کا وقفہ | شیح شیری
zindagi ka waqfa

نظم

زندگی کا وقفہ

اختر الایمان

;

رات سناٹے کی چادر میں پڑی ہے لپٹی
پتیاں سڑکوں کی سب جاگ رہی ہیں جیسے

دیکھنا چاہتی ہیں شہر میں کیا ہوتا ہے
میں ہمیشہ کی طرح ہونٹوں میں سگریٹ کو دبائے

سونے سے پہلے خیالات میں کھویا ہوا ہوں
دن میں کیا کچھ کیا اک جائزہ لیتا ہے ضمیر

ایک سادہ سا ورق نامۂ اعمال ہے سب
کچھ نہیں لکھا بجز اس کے پسے جاؤ یوں ہی

کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ انساں کا نصیب
گیلی گوندھی ہوئی مٹی کا ہے اک تودہ سا

دن میں سو شکلیں بنا کرتی ہیں اس مٹی سے
کچھ نہیں لکھا بس اک اتنا کہ چیونٹی دل ہے

جوق در جوق جو انسان نظر آتے ہیں
دانہ لے کر کسی دیوار پہ چڑھنا گرنا

اور پھر چڑھنا چڑھے جانا یوں ہی شام و سحر
کچھ نہیں لکھا بس اتنا کہ پسے جاؤ یوں ہی

اور اندوہ تأسف خوشی آلام نشاط
خود کو سو ناموں سے بہلاتے رہو چلتے رہو

سانس رک جائے جہاں سمجھو وہیں منزل ہے
اور اس دوڑ سے تھک جاؤ تو سگریٹ پی لو