ملکۂ شہر زندگی تیرا
شکر کس طور سے ادا کیجے
دولت دل کا کچھ شمار نہیں
تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے
جو ترے حسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویش روزگار کہاں؟
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اس سے خوش بخت کاروبار کہاں؟
جام چھلکا تو جم گئی محفل
منت لطف غم گسار کسے؟
اشک ٹپکا تو کھل گیا گلشن
رنج کم ظرفیٔ بہار کسے؟
خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد
دیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے
کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
نقد شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوق نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیر کائنات کرے
نظم
زندگی
فیض احمد فیض