EN हिंदी
زندگی چہرہ مانگتی ہے | شیح شیری
zindagi chehra mangti hai

نظم

زندگی چہرہ مانگتی ہے

منیر احمد فردوس

;

آج زندگی کی تاریخ تھی
اور وہ اس کے سامنے چیخ رہی تھی

جس نے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی
''اب میں بے چہرہ کیسے جیوں؟

میں نے تو اپنا چہرہ کاٹ کاٹ کر
بے چہرہ نسلوں میں بانٹ دیا

میری کور چشمی گواہ ہے
کہ میں نے اپنے سبھی منظر

بے منظر آنکھوں کو دے دئے
میری تمام خواہشیں نئی نسل نے بیچ کر

اپنی آرزوئیں خرید لیں
ہنسنے کے لئے میرے پاس اب ہونٹ نہیں ہیں

نسلوں کو دھوپ سے بچاتے بچاتے
جب سر میں چاندی اگ آتی ہے

تو نسلوں کے خون میں سفیدی کیوں دوڑنے لگتی ہے؟
ہر طرف میرے ہی دئے ہوئے چہرے گھوم رہے ہیں

اور میں اپنا چہرہ ڈھونڈ رہی ہوں
آخر بے چہرہ ہو کر کیسے جیا جا سکتا ہے؟''

مگر اس کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی
وہ کیسے بے چہرہ زندگی کو دیکھتا؟

اس کے ہاتھ سے جڑا ترازو کانپنے لگا
اس کے پاس نئے چہرے نہیں تھے

اور اس نے زندگی کو ایک لمبی پیشی دے دی