زندگانی کا خلا
یہ نہ بھر پایا کبھی
لالہ و گل کو کبھی پیار کیا
رات بھر تاروں کو بیدار کیا
کم نہ ہوتی تھی مگر دل کی کسک
دل کا غم آنکھوں سے برسایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
بھر لیا اس میں کبھی درد چمن
کبھی بے نام مقاصد کی لگن
جن سے احساس بھی جاتا تھا بہک
شیشۂ دل کو بھی چھلکایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
فن کی دیوی نے بھی برسائی شراب
وقت کی موج نے پھینکے در ناب
جن سے آئی مرے خوابوں میں چمک
جی ذرا ان سے بھی بہلایا کبھی
یہ نہ بھر پایا کبھی
زندگانی کا خلا
نظم
زندگانی کا خلا
مسعود حسین خاں