آج تاریکئ شب حد سوا لگتی ہے
جانے کیا بات ہوئی ہے کہ گھٹن ہوتی ہے
گو کہ اک عمر گزاری ہے اسی زنداں میں
نیم تاریک سے اس گوشۂ ویراں سے مری
ایسا لگتا ہے کہ دیرینہ شناسائی ہے
اس کی دیواروں پہ لکھے ہیں کئی افسانے
جن میں دلگیر تمناؤں کی گہرائی ہے
اس کی بے جان زمیں نے مری آنکھوں میں بہت
خشک سینے کے لئے آب بقا پایا ہے
اس کی مخدوش شکستہ سی چھتوں نے اکثر
شب ڈھلے نالۂ دلگیر کو دہرایا ہے
اسی زندان کے روزن نے سحر کے قصے
مہرباں ہو کے مرے حال پہ دہرائے ہیں
اب یہ عالم ہے کہ گردن کا ہے ہم راز یہ طوق
بیڑیاں ہیں مرے پیروں کی سہیلی اب تو
اب تو زنجیر کی جھنکار میں لطف آتا ہے
اب یہ پروانہ رہائی کا جلا دو تو سہی
اسی زنداں کو مری قبر بنا دو تو سہی
طاق کی شمع تعلق بھی بجھاؤ تو سہی
اس سے کہہ دو کہ رہائی نہیں ہونے والی
مجھ میں زنداں میں جدائی نہیں ہونے والی
لذت وصل اسے اب نہیں ملنے والی
دل گئی رات سحر اب نہیں ہونے والی
نظم
زندان نامہ
عفیف سراج