رات باقی تھی ابھی جب سر بالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا 'جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہہ جام اتر آئی ہے'
عکس جاناں کو وداع کر کے اٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے تیرتے مرجھاتے رہے کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
صحن زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطح ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس کا درد فراق رخ مجبوب کا غم
دور نوبت ہوئی پھرنے لگے بے زار قدم
زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہل زنداں کے غضب ناک خروشاں نالے
جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے
لذت خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر مچل کے روئی
دور اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر
سر پٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمن جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جنات گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بے کار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہی ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
نظم
زنداں کی ایک صبح
فیض احمد فیض